(اہم خبریں)

    کہانی: ہیکرز کا نیا شکار — ایوانِ بالا کے معزز اراکین

    "اسلام آباد میں آن لائن ہیکرز کی کارروائیاں، اراکین پارلیمنٹ سے لاکھوں روپے فراڈ"

    اسلام آباد کی ایک شام تھی۔ ایوانِ بالا کی عمارت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس جاری تھا۔ عام طور پر یہاں ملک کے اہم قومی معاملات پر گفتگو ہوتی ہے، مگر اس بار موضوع کچھ مختلف اور چونکا دینے والا تھا۔

    کمیٹی کے سامنے ایک حیران کن انکشاف ہوا — آن لائن ہیکرز نے نہ صرف عام شہریوں بلکہ اراکینِ پارلیمنٹ کو بھی اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ ان جدید دور کے مجرموں نے جعلی کالز اور آن لائن فراڈ کے ذریعے لاکھوں روپے ہتھیا لیے تھے۔

    سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے سب سے پہلے معاملے کی سنگینی بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک منظم گروہ سینیٹرز کو فون کرتا ہے، ان کی مکمل ذاتی معلومات بتا کر اعتماد حاصل کرتا ہے اور پھر پانچ سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے مطابق یہ گروہ نہایت پیشہ ورانہ انداز میں کام کر رہا ہے — جیسے انہیں اراکین کی روزمرہ تفصیلات تک رسائی ہو۔

    اس دوران سینیٹر فلک ناز چترالی نے ایک اور افسوسناک واقعہ بیان کیا۔ ان کے مطابق ایک شخص نے خود کو “کونسلنگ سینٹر بنانے” والے ادارے کا نمائندہ ظاہر کیا، جس نے قسطوں میں پانچ لاکھ روپے بٹور لیے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہیکرز کے پاس ان کے اہل خانہ اور بچوں سے متعلق مکمل معلومات موجود تھیں — جیسے وہ گھر کے اندر بیٹھے ہوں۔

    یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ سینیٹر دلاور خان کے اکاؤنٹ سے بھی ساڑھے آٹھ لاکھ روپے غائب کر لیے گئے۔
    یہ تمام باتیں سن کر کمیٹی کے ارکان غم و غصے میں آ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکایات تو این سی سی آئی اے کو درج کرائی گئیں، مگر اب تک کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں ہوئی۔ ادارے کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے۔

    اسی اجلاس میں ایک اور بحث چھڑ گئی — سفارتی پاسپورٹ کے اجرا پر۔
    چیرمین کمیٹی فیصل سلیم نے تجویز پیش کی کہ “ہمیں بھی سرکاری امور کی انجام دہی میں سہولت کے لیے سفارتی پاسپورٹ جاری کیے جائیں۔”
    اس پر ڈی جی پاسپورٹ نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ کابینہ کی منظوری سے مشروط ہے، سفارشات وزیراعظم کو ارسال کی جائیں گی، اور منظوری کے بعد ہی سفارتی پاسپورٹ جاری ہو سکیں گے۔

    دوسری جانب، ڈی جی این سی سی آئی اے سید خرم علی نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے نئے افسران بھرتی کیے جا رہے ہیں، اور آئندہ چھ ماہ میں این سی سی آئی اے کو مکمل طور پر فعال کر دیا جائے گا۔
    البتہ سینیٹر شہادت اعوان نے نشاندہی کی کہ ادارے میں پراسیکیوشن کا فقدان ہے — مقدمات درج ہوتے ہیں مگر کارروائی آگے نہیں بڑھتی۔

    اجلاس کے اختتام پر کمیٹی نے وزارتِ داخلہ کو ہدایت دی کہ اراکینِ پارلیمنٹ سے ہونے والے ان آن لائن فراڈ کے معاملات کی فوری تحقیقات کی جائیں، اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو ریاستی اداروں کے اعتماد کو متزلزل کر رہے ہیں۔

    0/Post a Comment/Comments