جرمنی کے ایک پرسکون شہر میں اسپتال کی لمبی راہداریوں میں رات کے سناٹے گونجتے تھے۔ نائٹ شفٹ پر مامور نرس اکثر خاموشی سے مریضوں کے کمروں میں داخل ہوتی، درد کم کرنے والی ادویات دیتی اور پھر دھیرے سے دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔ لیکن ان راتوں کے پیچھے ایک ایسا راز چھپا تھا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
مہینوں بعد جب شکایات بڑھنے لگیں اور اموات کی تعداد مشکوک ہو گئی، تو اسپتال انتظامیہ نے تفتیش شروع کی۔ حیرت انگیز طور پر پتہ چلا کہ ایک ہی نرس ان تمام واقعات کے دوران ڈیوٹی پر موجود تھی۔
اس کے ہاتھوں صرف درد کم کرنے والی دوائیں نہیں دی جا رہیں تھیں — بلکہ زہریلے انجکشن بھی لگائے جا رہے تھے۔
عدالتی کارروائی میں یہ بات سامنے آئی کہ دسمبر 2023 سے مئی 2024 کے درمیان اُس نرس نے 10 مریضوں کو ہلاک کیا اور 27 مزید کو قتل کرنے کی کوشش کی۔
ان میں زیادہ تر بزرگ افراد تھے جو رات کی خاموشی میں اس نرس کی "مہربانی" کے سائے میں اپنی آخری سانسیں لے چکے تھے۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نرس اپنے کام کو "آسان" بنانے کے لیے یہ سب کرتی تھی — تاکہ مریضوں کی دیکھ بھال کم ہو جائے۔
عدالت نے طویل سماعت کے بعد اُسے عمر قید کی سزا سنا دی۔
مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اس نرس کے پچھلے اسپتالوں میں بھی مشکوک اموات ہو چکی ہیں۔
اب حکام اُس کے ماضی کے تمام کیسز کھول کر دیکھ رہے ہیں، شاید یہ اس کی “مہربانی” کی آخری فہرست نہ ہو۔
دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ 2019 میں بھی ایک اور نرس کو 85 مریضوں کے قتل پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں مسلسل ایسے واقعات نے انسانیت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے —
کہ جب شفا دینے والے ہاتھ ہی زہر بن جائیں، تو پھر بھروسہ کہاں جائے؟

ایک تبصرہ شائع کریں