حیدرآباد سے ایک انوکھی خبر سامنے آئی ہے جہاں سول اسپتال انتظامیہ نے علاج کے حوالے سے حیران کن ضوابط طے کرلیے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسپتال آنے والے مریض اگر موبائل فون یا کیمرہ آن حالت میں لے کر آئیں گے تو ان کا علاج نہیں کیا جائے گا۔
یہ معاملہ اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب اے ایم ایس نرسنگ اور فوکل پرسن برائے ڈینگی وائرس ڈاکٹر پونم جتوئی کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس آڈیو میں انہیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اسپتال میں موبائل یا کیمرا آن کر کے آنے والے مریضوں کا علاج روک دیا جائے گا۔
ڈاکٹر پونم جتوئی کے مطابق، اس حوالے سے انہوں نے ایم ایس اور ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے بات کی ہے اور یہ فیصلہ اُن کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد زین العابدین نے صورتِ حال واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال میں ایک معمولی مسئلہ پیش آیا تھا جسے مناسب طریقے سے حل کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "سول اسپتال میں ہر مریض کا علاج ضرور کیا جائے گا، مگر کسی کو ہنگامہ آرائی یا بدتمیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔"
زین العابدین نے مزید کہا کہ ڈاکٹر پونم جتوئی نے اپنی گفتگو میں جو الفاظ استعمال کیے، وہ انتظامیہ کے مؤقف کی نمائندگی نہیں کرتے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ سول اسپتال حیدرآباد تنازع کی زد میں آیا ہو۔ اس سے قبل بھی اسپتال کو مالی بحران، طبی سہولیات کی کمی، اور ادویات کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر کا یہ اسپتال، جو کبھی شفا خانے کے طور پر جانا جاتا تھا، اب مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ مریضوں کو نہ صرف دواؤں کی قلت کا سامنا ہے بلکہ آکسیجن اور جدید طبی آلات کی کمی نے بھی مشکلات بڑھا دی ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ کے لیے یہ صورتحال باعثِ تشویش ہے، جہاں صنعتوں اور بندرگاہوں سے اربوں روپے کی آمدنی ہونے کے باوجود عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے ترسنا پڑ رہا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں