مشہور صحافی اور تجزیہ کار عمران ریاض خان نے اپنے تازہ پروگرام میں کہا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات ایک بار پھر غیر یقینی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ عمران خان صاحب سے ملاقات نہ ہو، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ملاقات کے فوراً بعد عمران خان کوئی نئی تحریک شروع کر سکتے ہیں۔
عمران ریاض کے مطابق اسٹیبلشمنٹ دو وجوہات کی بنا پر ملاقات سے گریز کر رہی ہے —
پہلی یہ کہ عمران خان دوبارہ عوامی سطح پر متحرک نہ ہو جائیں،
اور دوسری یہ کہ وہ اپنے سخت بیانیے کو مزید تیز نہ کریں۔
تاہم، عمران ریاض کا کہنا ہے کہ ان دونوں کوششوں میں اسٹیبلشمنٹ ناکام ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی بہن کے ذریعے جو پیغام دیا وہ اب تک کا سب سے سخت پیغام تھا۔
ان کے مطابق عمران خان نے جنرل آصف منیر پر براہِ راست الزام عائد کیا کہ
وہ ذہنی دباؤ میں ہیں، ظلم کر رہے ہیں،
اور اپنی کرسی کے لیے ہر حد سے گزر سکتے ہیں۔
عمران ریاض کے مطابق عمران خان کے یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت کا امکان فی الحال موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پیغامات سہیل آفریدی اور سلمان اکرم راجہ کے ذریعے
اسٹیبلشمنٹ تک پہنچ چکے ہیں، لہٰذا اب ملاقات رکوانے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا۔
اپنے پروگرام میں عمران ریاض خان نے مزید کہا کہ
تحریک انصاف اس وقت کسی فوری تحریک کا ارادہ نہیں رکھتی،
بلکہ وہ صورتحال کو دیکھ رہی ہے کہ حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دب رہی ہے۔
ان کے مطابق عوامی مسائل، معاشی بحران اور ناکام وعدے حکومت کے لیے
نئی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی صرف وقت کا انتظار کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو عدالتوں میں پیش ہونے اور
قانونی لڑائی جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
پنجاب میں عالیہ حمزہ اور خیبر پختونخوا میں گنڈاپور کے کردار پر بھی بات کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ عالیہ حمزہ نے پارٹی کو منظم رکھا،
قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور عمران خان کا بھرپور اعتماد حاصل کیا۔
عمران ریاض نے اپنے پروگرام میں 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی آئینی ترمیم اس قدر خاموشی سے نہیں ہوئی،
اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی سیاسی عمل کا نہیں بلکہ
“ایجنسیوں کے منصوبے” کا حصہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ اس ترمیم میں “چیف آف ڈیفنس اسٹاف” کے نئے عہدے کی تجویز شامل ہے،
جس کے ماتحت تمام فورسز — پولیس، ایف سی، ایف آئی اے — ایک ہی کمانڈ میں آ جائیں گی۔
ان کے مطابق یہ اقدام صوبائی خودمختاری کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔
عمران ریاض خان کے مطابق حکومت اسمبلی کی مدت چھ سال تک بڑھانے پر بھی غور کر رہی ہے،
تاکہ اگلے انتخابات نگران حکومت کے بغیر موجودہ حکومت ہی کروا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک نیا ماڈل لانے کی کوشش ہے جو “امریکی طرزِ نظام” سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایمل ولی خان کے بیانات نے بھی سیاسی ماحول میں ہلچل مچا دی ہے،
کیونکہ انہوں نے الزام لگایا کہ 9 مئی کو ریڈیو پاکستان پشاور کو خود فوج نے جلایا تھا۔
عمران ریاض کے مطابق اگر یہی بات کوئی پی ٹی آئی رہنما کہتا تو اسے فوری گرفتار کر لیا جاتا۔
پروگرام میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سابق ترجمان پی ٹی آئی اور نیوی کے افسر
احمد جواد کو سائبر کرائم وِنگ نے گرفتار کر لیا ہے،
حالانکہ وہ ہمیشہ شائستگی سے بات کرتے تھے۔
عمران ریاض نے کہا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مخالف امیدواروں کے حامیوں کو
تحریک لبیک کے کھاتے میں ڈال کر گرفتار کیا جا رہا ہے،
جس سے صاف ظاہر ہے کہ انتخابی عمل آزاد نہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ
پاکستان میں "مقبولیت اور قبولیت" کا نعرہ ہمیشہ سیاست میں چلتا رہا،
لیکن انہوں نے کہا کہ دنیا کے جدید جمہوری ممالک میں
اب عوامی مقبولیت ہی سب سے بڑی طاقت ہے —
جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال۔
ان کے مطابق آج کا پاکستانی نوجوان سیاست سے مایوس نہیں ہوا،
بلکہ پہلے سے زیادہ باشعور اور سیاسی طور پر متحرک ہے۔
وہ اب روایتی سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت،
اور میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ سے تنگ آ چکا ہے۔
پروگرام کے اختتام پر عمران ریاض خان نے بتایا کہ
چودھری غلام حسین کو اپنے یوٹیوب چینل پر پروگرام کرنے سے روک دیا گیا ہے،
جو اظہارِ رائے پر پابندی کی ایک اور مثال ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ چینی کا نیا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے،
اور 12 نومبر کو خیبر پختونخوا میں ایک بڑا جرگہ ہونے جا رہا ہے
جس پر اسٹیبلشمنٹ کی گہری نظر ہے۔
آخر میں عمران ریاض خان نے کہا کہ
“یہ ملک ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔
لوگ جاگ رہے ہیں، اور اب فیصلے عوام کے ہاتھ میں آنے والے ہیں۔”

ایک تبصرہ شائع کریں